بشکریہ- دوپہر کا سامنا 13 04 2024
اس وقت پورے ملک میں گنیش اتسو منایا جا رہا ہے۔ گنیش وسرجن اور عید میلاد النبی کی تقریباً بیک وقت رونمائی انتظامیہ کے لیے تناؤ کا باعث تھی۔ گنیش بھکت ہم وطنوں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں نے عید میلاد النبی کے جلوس کی تاریخ میں دو دن کی توسیع کر دی۔ یعنی 17 ستمبر کو وسرجن کے اگلے روز 18 ستمبر کو مختلف علاقوں میں عید میلاد النبی کے جلوس نکالے جائیں گے۔ گنیش بھکتوں سمیت کئی گنیش منڈلوں اور انتظامیہ نے مسلمانوں کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ درحقیقت حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کا یہی نچوڑ ہے کہ پورے معاشرے کے جذبات کا احترام کیا جائے۔ پچھلے کچھ سالوں سے مسلم معاشرے کے بہت سے دانشور اور علمائے کرام اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ 'پیغمبر سب کے لیے' کے نام سے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ حال ہی میں ناچیز کو بھی ان کی ایک اہم میٹنگ میں مدعو کیا گیا تھا لیکن افسوس کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر شرکت نہیں کر سکا، جس کا بیحد افسوس ہے۔ ہاں یہ دیکھ کر اور سن کر خوشی ہوئی کہ اس اجلاس میں تمام مذاہب کے بہت سے نامور افراد موجود تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق مسائل پر کھل کر تبادلہ خیال کیا گیا۔ میں یہاں ان ناموں کا ذکر کرنے سے گریز کر رہا ہوں۔ کیونکہ جب کام بڑا ہو تو نام کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ ایک شبہ یہ بھی رہتا ہی کہ اگر کسی کا نام چھوٹ جائے تو ناراضگی ہو گی اور حضرت محمدﷺ، جن کے حوالے سے یہ مہم چل رہی ہے، ان کی شخصیت میں اعلیٰ اخلاق، رواداری، عاجزی اور رحم دلی جیسی بہت سی خوبیاں تھیں۔ ایسے میں تبدیلی اپنے اندر سے شروع ہونی چاہیے۔
'پیغمبر سب کے لیے' مہم کا مقصد محمدﷺ کے حقیقی پیغامات اپنے ہم وطن بھائیوں تک پہنچانا ہے۔ یعنی ان کی زندگی کے انفرادی، اجتماعی اور سماجی پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے۔ انہیں حقائق کے ساتھ بتایا جائے کہ پیغمبر کے احکامات اور ہدایات ذات پات، رنگ، نسل یا مذہب سے قطع نظر پورے انسانی معاشرے سے متعلق ہیں۔ ہمارے ملک کے مخلوط معاشرے میں صدیوں سے مسلم برادری اپنے ہم وطن بھائیوں کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کر رہی ہے لیکن یہ بدقسمتی ہی سمجھی جائے گی کہ انہیں پیغمبر اسلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ پیغمبر حضرت محمدﷺ کو رحمت اللعالمین کہنے کی بنیاد قرآن کریم کی متعدد آیات میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر، سورہ الانبیاء (القرآن 21:107) "اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔" یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ پیغمبر کا مقصد تمام بنی نوع انسان کے ساتھ مہربانی اور ہمدردی پھیلانا تھا۔ حضرت محمدﷺ کا پیغام پوری انسانیت کے لیے تھا، نہ کہ صرف عربوں یا مسلمانوں کے لیے۔ آپ نے توحید اور اخلاقی زندگی گزارنے کا پیغام دیا۔ یعنی خدا سب کے لیے ایک ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں تمام مذاہب کے لیے رواداری اور احترام کی مثال قائم کی۔ انہوں نے غیر مسلموں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کو برقرار رکھا۔ ان کی مجلسیں مساجد کے صحنوں میں ہوا کرتی تھیں۔ یعنی محمدﷺ نے انسانیت کی بھلائی کے لیے اللہ کا بھیجا ہوا آفاقی پیغام دیا۔
قرآن اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمدﷺ کے پیغامات آج بھی متعلقہ ہیں۔ انہوں نے غریبوں، کمزوروں اور مصائب کے تئیں ہمدردی اور دیانت داری کا پیغام دیتے ہوئے ذات پات، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کو ختم کرکے مساوات کا آئیڈیل قائم کیا۔ معاشرے میں ہم آہنگی اور خلوص کو برقرار رکھنے کے لیے اخلاقی اور روحانی زندگی گزارنے کا پیغام دیا۔ انہوں نے سچائی، دیانت اور قربانی جیسی اقدار پر زور دیا۔ آج کے مادہ پرست دور میں انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے ان اقدار پر عمل کرنا ضروری ہے۔ محمدﷺ نے تعلیم کو بہت اہمیت دی۔ انہوں نے کہا کہ علم حاصل کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ آج کے دور میں تعلیم کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے سماجی انصاف کے قیام پر زور دیا۔ آج بھی ہمیں دنیا میں عدم مساوات اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اتحاد، اخلاقیات، تعلیم اور سماجی انصاف کے شعبوں میں محمدﷺ کی تعلیمات کو اپنا کر ہم ایک بہتر اور انصاف پسند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
آج کے دور میں فرقہ پرست طاقتوں نے سماجی ہم آہنگی کو درہم برہم کرنے کی پوری کوشش کی ہے، لیکن اکثریت قوموں اور مسلمانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ اب بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ تاہم نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی نفرت تشویشناک ہے۔ من گھڑت کہانیاں اور جھوٹی افواہیں پھیلا کر پیغمبر اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کو یہ احساس دلایا جائے کہ پیغمبر ان کے بھی ہیں۔ صرف ان کے ہی نہیں بلکہ سب کے ہیں۔ مسلمانوں نے قرآن اور محمدﷺ کو صرف اپنی ذات تک محدود کر رکھا ہے۔ جبکہ نوجوانوں میں مختلف ثقافتوں، مذاہب اور زبانوں کی تعلیم کا تبادلہ ہونا چاہیے۔ اس سے طلباء میں مختلف پس منظر کے لیے احترام اور رواداری پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ محمدﷺ کے پیغام کو کثیر الثقافتی اصولوں کے ساتھ مل کر ایک جامع اور روادار معاشرے کی تعمیر کے لیے مختلف ورکشاپس کے ذریعے مؤثر طریقے سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ 'پیغمبر سب کے لیے' مہم کے ذریعے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو زندگی کے تمام شعبوں سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس اقدام کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ تب ہی عید میلاد النبی ایک بامعنی تہوار بن کر ابھرے گا، ورنہ اسے صرف سیاسی تسکین کا ذریعہ سمجھا جائے گا۔
@ڈاکٹر سید سلمان
(مصنف، شعبہ ہندی صحافت، گروارے انسٹی ٹیوٹ، ممبئی یونیورسٹی کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ ساتھ ہی ملک کے کئی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)